Monday
Garmi mein Mushara by Dilawar fagar
گرمی میں مشاعرہ
یہ محفل سخن تھی مئی کے مہینے میں     شاعر سبھی نہائے ہوئے تھے پسینے میں 
زندہ رہیں گے حشر تک ان شاعروں کے نام   جو اس مشاعرہ میں سنائے گئے کلام 
صدر مشاعرہ کہ جناب خماز تھے    بیکس تھے بے وطن تھے غریب الدیار تھے 
ماہر تھے بے قرار تو احقر تھے بد حواس   کوثر پکارتے تھے کہ پانی کا ایک گلاس 
شوق و نشور و ساحر و شاعر فگار و راز    اک مقبرہ میں دفن تھے جملہ شہید ناز 
ایسا بھی ایک وقت نظر سے گزر گیا    جب صآبری کے صبر کا پیمانہ بھر گیا 
یہ مہماں تھے اور کوئی میزباں نہ تھا    ان "آل انڈیوں" کا کوئی قدرداں نہ تھا
گرمی سے دل گرفتہ نہ تھا صرف اک امؔیر   کتنے ہی شاعرون کا وہاں اٹھ گیا خمیر 
رو رو کےکہ رہاتھا اک استاد دھامپور    "مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور "
القصہ شاعروں کی وہ مٹی ہوئی پلید    شاعر سمجھ رہے تھے کہ ہم اب ہوئے شہید 
وہ شاعروں کا جم غفیر ایک ہال میں   دم توڑتے ہوں جیسے مریض اسپتال میں 
وہ تشنگی وہ حبس وہ گرمی کہ الاماں   منہ سے نکل پڑی تھی اک استاد کی زباں 
شاعر تھے بند ایک سینما کے ہال میں   پنچھی پھنسے ہوئے تھے شکاری کے جال میں 
وہ پیاس تھی کہ جام قضا مانگتے تھے لوگ   "وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ" 
موسم کچھ ایسا گرم کچھ اتنا خراب تھا    شاعر جو بزم شعر میں آیا کباب تھا
بزم سخن کی رات قیامت کی رات تھی   ہم شاعروں کے حق میں شہادت کی رات تھی 
کچھ اہل ذوق لائے تھے ساتھ اپنے تولیا   ننگے بدن ہی بیٹھے تھے کچھ پیر و اولیا 
پاجامہ و قمیص نہ آیا بدن کو راس   بیٹے تھے لوگ پہنے ہوئے قدرتی لباس 
کیسے کہوں وہ اہل ادب بے وقوف تھے   اتنا ضرور ہے کہ وہ موسم پروف تھے 
گرمی سے مضطرب تھے یہ شاعر یہ سامعین   کہتے تھے ہم پہ رحم کر اے رب عالمین 
یہ آخری گناہ تو ہو جائے در گزر   اب ہم مشاعرہ میں نہ جائیں گے بھول کر 
یہ ہوش کس کو تھا کہ وہاں کس نے کیا کیا   سب کو یہ فکر تھی کہ ملے جلد خوں بہا 
حالانکہ جان بچنے کی صورت نہ تھی کوئی   حکم خدا کہ اپنی قضا ملتوی ہوئی 
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment